آپ نے خود ہی لکھا ہے کہ:۔
ابو موسی کے بیٹے ابو بردہ نے اپنی گواہی میں تحریر کیا کہ:
میں رب العالمین کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ حجر ابن عدی اور
اس کے ساتھیوں نے جماعت سے علیحدگی اختیار کر لی اور امیر کی اطاعت سے انحراف کیا ہے
اور لوگوں کو امیر المومنین معاویہ کی بیعت توڑنے کی دعوت دیتے ہیں
آپ نے خود ہی لکھا ہے کہ:۔
کہنے لگے ۔
خدا وندا عثمان بن عفانؓ پر رحم کر اُن سے در گزر کر عمل نیک کی انہیں جزا دے
اور اُن کے قاتلوں پر بدعا کی
یہ سن کر حجر بن عدیؓ اُٹھ کھڑے ہوئے
مغیرہؓ کی طرف دیکھ کر اس طرح اک نعریہ بلند کیا ۔
کہ مسجد میں جتنے لوگ بیٹھے تھے اور جو باہر تھے سب نے سنا۔
آپ کی نقل کردہ تحریر سے پتہ چلا کہ حجر بن عدی حضرت عثمان کے قاتلوں کے خلاف بددعا
برداشت نہیں کرتا تھا۔ اور اسی کو حبِ علی کا تقاضا سمجھتا تھا۔ظاہر ہے کہ جوشخص حضرت عثمان
کے قاتلوں کے لئے بددعا برداشت نہیں کرتا وہ امیرمعاویہ کی حکومت کیونکر تسلیم کر سکتا ہے؟
آپ نے خود ہی نقل کیا ہے کہ حجر بن عدی حکمرانی کا حق صرف آل ابوطالب کیلئے مانتا تھا،اس سے تو پتہ چلتا ہے کہ وہ خلفاء ثلاثہ سے بھی بغاوت رکھتا تھا۔
شیعہ مؤرخ دینوری لکھتا ہے کہ اس نے صلح حسن پر امام حسن کو شرم دلائی تھی ،پھر امام حسین کے پاس گیا وہاں سے بھی جواب ملا۔پس وہ حسنین کریمین کی صلح کا بھی باغی تھا۔
علی کی شتم و ذم نہ چھوڑنا کی روایت آپ نے جہاں سے لی ہے وہیں لوط بن یحییٰ کی شخصیت بطورراوی جلوہ گرہے،اور وہ جلا بھنا شیعہ ہے۔
آپ نے ام المومنین کا قول پیش کیا مگر سند صحیح نہ بتا سکے ۔ فتنے ختم ہونے کے بعد ام المومنین عائشہ صدیقہ نے فرمایا
میں لوگوں کا معاملہ فتنے کے دور میں دیکھتی رہی یہاں تک کہ میری تمنا یہ ہو گئی کہ اللہ تعالیٰ میری عمر بھی معاویہ کو دے ۔(طبقات ابن عروبہ)۔