اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيْحَ عِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُوْلَ اللّٰهِ ۚ وَمَا قَتَلُوْهُ وَمَا صَلَبُوْهُ وَلٰكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ ۭ وَاِنَّ الَّذِيْنَ اخْتَلَفُوْا فِيْهِ لَفِيْ شَكٍّ مِّنْهُ ۭ مَا لَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚ وَمَا قَتَلُوْهُ يَقِيْنًۢا ۔بَلْ رَّفَعَهُ اللّٰهُ اِلَيْهِ ۭوَكَانَ اللّٰهُ عَزِيْزًا حَكِ۔يْمًا اور ان کے اس کہنے پر کہ ہم نے قتل کیا مسیح عیسیٰ مریم کے بیٹے کو جو رسول تھا اللہ کا اور انہوں نے نہ اس کو مارا اور نہ سولی پر چڑھایا لیکن وہی صورت بن گئی ان کے آگے اور جو لوگ اس میں مختلف باتیں کرتے ہیں تو وہ لوگ اس جگہ شبہ میں پڑے ہوئے ہیں کچھ نہیں ان کو اس کی خبر صرف اٹکل پر چل رہے ہیں اور اس کو قتل نہیں کیا بےشک بلکہ اس کو اٹھا لیا اللہ نے اپنی طرف اور اللہ ہے زبردست حکمت والا(سورہ نسا ۔۱۵۷۔۱۵۸) یہود کا یہ کہنا تھا کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ کو قتل کر دیا (نعوذ باللہ) یہاں اللہ پاک نے یہود کہ اس قول کی دو ٹوک الفاظ میں نفی کریدی اور ما قتلوہ اور ما صلبوہ کہ کر ان کے قتل مطلق کی نفی فرما دی اور یہ فرما دیا کہ بل رفعہ اللہ الیہ یعنی ، بلکہ اللہ نے اٹھا الیا اس کو اپنی طرف۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے حضرت عیسیٰ کو موت سے بچا کر اوپر آسمانوں میں اپنی طرف اٹھا لیا ۔ اب یہاں کچھ باتیں سمجھ لیجئے۔ ۱۔ بل رفعہ اللہ کی ضمیر اسی طرف راجع ہے جس طرف کہ ما قتلوہ اور ما صلبوہ کی ضمیریں راجع ہیں اور ظاہر ہے کہ ما قتلوہ اور ما صلبوہ کی ضمیر یں حضرت عیسیٰ کے جسم و جسد اطہر کی طرف راجع ہیں۔ روح بلا جسم کی طرف راجع نہیں ہیں۔اس لیے کہ قتل کرنا اور صلیب چڑھانا جسم کا ہی ممکن ہے روح کا قطعا ناممکن ہے۔لہذا بل رفعہ کی ضمیر اسی جسم کی طرف راجع ہوگی جس جسم کی طرف ما قتلوہ اور ما صلبوہ کی ضمیریں راجع ہیں۔ساتھ ہی ساتھ یہ کہ یہود روح کے قتل کے مدعی نہ تھے بلکہ جسم کو وہ قتل کرنا چاہتے تھے اور بل رفعہ اللہ میں اس کی تردید کی گئی لہذا بل رفعہ سے مراد جسم(مع روح) ہی ہو گا نہ کہ صرف روح۔ ۲۔ اگر رفع سے رفع روح بمعنی موت مراد ہے تو قتل و صلب کی نفی سےکیا فائدہ؟ کیوں کہ قتل و صلب سے غرض موت ہی ہوتی ہے اور یہاں "بل "کے بعد بصیغہ ماضی" رفعہ" کو لانے میں اس طرف اشارہ ہے کہ تمہارے قتل و صلب سے پہلے ہی ان کو ہم نے اپنی طرف اٹھا لیا۔یہی بات ہے کہ جملہ ائمہ و مفسرین اس بات پر بالکل متفق ہیں آپ کوئی بھی مستند تفسیر اٹھا کر دیکھ لیجئے (کئی ایک کہ تراجم اب نیٹ پر بھی دستیاب ہیں) کہ حضرت عیسیٰ کا یہ رفع ان کی زندگی کی حالت میں ان کے جسد عنصری کے ساتھ ہوا۔مثلا ۱۔ علامہ ابن جریر طبری تفسیر جامع البیان میں اس آیت کے تحت سدی سے بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عیسیٰ کو آسمانوں پر اٹھا لیا گیا۔نیز حضرت مجاہد سے روایت کرتے ہیں سیدنا عیسیٰ کو اللہ تعالیٰ نے زندہ اٹھا لیا۔(جامع البیان جز ۶ص ۱۴،۱۵)۲۔علامہ ابن کثیر حضرت مجاہد کی روایت کو یوں نقل فرمایا ہے"یہود نے ایک شخص کو جو مسیح کا شبیہ تھاصلیب پر لٹکایاجبکہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے زندہ آسمانوں پر اٹھالیا۔(ج۳ص۱۲)۳۔اب لفظ رفع کے بارے میں کچھ باتیں سمجھ لیجئے ۔ لفظ رفع قرآن مجید میں مختلف صیغوں کی صورت میں کل ۲۹ دفعہ استعمال ہوا ہے۔ ۱۷ مرتبہ حقیقی اور ۱۲ مرتبہ مجازی معنوں میں ۔ گو کہ رفع کے معنی اٹھانے اور اوپر لے جانے کہ ہیں لیکن وہ رفع کبھی اجسام کا ہوتا ہے کبھی معانی و اعراض کا، کبھی اقوال و افعال کا ہوتا ہے اور کبھی مرتبہ و درجہ کا۔ جہاں رفع اجسام کا ذکر ہو گا وہاں رفع جسمانی مراد ہو گی۔اور جہاں رفع اعمال و درجات کا ذکر ہو گا وہاں رفع معنوی مراد ہو گا۔یعنی جیسی شے ہو گی اس کا رفع بھی اس کے مناسب ہوگا مثال۱۔ رفع جسمانی و رفع ابویہ علی العرش (یوسف ۱۰۰) اور اونچا بٹھایا اپنے ماں باپ کو تخت پر۔ ۲۔ رفع ذکر و رفعنا لک ذکرک۔ اور ہم نے آپ ﷺ کا ذکر بلند کیا۔ ۳۔ رفع درجات ورفعنا بعضھم فوق بعض درجٰت(الزخرف ۳۲) اور بلند کر دیئے درجے بعض کے بعض پر ۔ اب یہاں جیسی شے ہے ویسے ہی اس کے مناسب رفع کی قید ہے جیسا کہ آخر میں خود ذکر و درجے کی قید موجود ہے۔ رفع کی مذکورہ تعریف اور مثالوں سمجھنے کے بعد اب یہ سمجھنا کہ قرآن میں جہاں کہیں رفع آئے گا وہ روحانی یا درجات کا ہی رفع ہوا گا محض ایک جہالت کی بات ہ۔ ۔ یہ بھی اعتراض کیا ہے کہ اس آیت میں آسمان کا لفظ تو نہیں بلکہ صرف اتنا ہے کہ اللہ پاک نے حضرت عیسیٰ کو اپنی طرف اٹھا لیا تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان کواوپر آسمانوں کی طرف اٹھا یا ہو کیونکہ اللہ پاک تو ہر جگہ موجود ہیں ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بات اچھی طرح سمجھ لی جائے کہ اللہ رب العزت کے لیے فوق و علو ہے ،گو کہ وہ جہت و مکان سے منزہ ہے لیکن انسانی تفہیم کے لیے اور کسی جہت و جگہ کی تکریم کے لیےاس نے اسے اپنی طرف منسوب بھی فرمایا ہے، انہی معنوں میں قرآن میں کہا گیا ہے: [ءَاَمِنْتُمْ مَّنْ فِي السَّمَاۗءِ اَنْ يَّخْسِفَ بِكُمُ الْاَرْضَ فَاِذَا هِيَ تَمُوْر(سورہ ملک ۱۶) ترجمہ: کیا تم اس سے ڈرتے نہیں جو آسمان میں ہے کہ وہ تمہیں زمین میں دھنسا دے پس یکایک وہ لرزنے لگے۔ اَمْ اَمِنْتُمْ مَّنْ فِي السَّمَاۗءِ اَنْ يُّرْسِلَ عَلَيْكُمْ حَاصِبًا ۭ فَسَتَعْلَمُوْنَ كَيْفَ نَذِيْر(سورہ ملک ۱۷) کیا تم اس سے نڈر ہو گئے ہو جو آسمان میں ہے وہ تم پر پتھر برسا دے پھر تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ میرا ڈرانا کیسا ہے۔(مرزا بشیر الدین نے ام امنتم من فی السما کا ترجمہ آسمان میں رہنے والی ہستی سے کیا ہے۔تفسیر صغیر ص ۷۶۰) اسیا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نزول وحی کے انتظار میں باربار آسمان کی طرف دیکھا کرتےتھے۔ قَدْ نَرٰى تَ۔قَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاۗءِ(بقرہ ۱۴۴) ترجمہ: بے شک ہم دیکھتے ہیں بار بار اٹھنا تیرے منہ کا آسمان کی طرف۔ نیز یہ حدیث بھی ملاحظہ فرمایئے۔ وعن أبي الدرداء قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : " من أشتكى منكم شيئا أو اشتكاه أخ له فليقل : ربنا الله الذي في السماء تقدس اسمك أمرك في السماء والأرض كما أن رحمتك في السماء فاجعل رحمتك في الأرض اغفر لنا حوبنا وخطايانا أنت رب الطيبين أنزل رحمة من رحمتك وشفاء من شفائك على هذا الوجع . فيبرأ " . رواه أبو داود (بحوالہ مشکوٰۃ حدیث ج۲ نمبر ۳۴) ترجمہ: حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ " تم میں سے جس شخص کو کوئی بیماری ہو یا اس کا کوئی بھائی بیمار ہو تو اسے چاہئے کہ یہ دعا پڑھے۔ ہمارا پروردگار اللہ ہے، ایسا اللہ جو آسمان میں ہے، تیرا نام پاک ہے، تیری حکومت آسمان و زمین (دونوں) میں ہے، جیسی تیری رحمت آسمان میں ہے ویسی ہی تو اپنی رحمت زمین پر نازل فرما، تو ہمارے چھوٹے اور بڑے گناہ بخش دے تو پاکیزہ لوگوں کا پروردگار ہے (یعنی ان کا محب اور کا رساز ہے اور تو اپنی رحمت میں سے (جو ہر چیز پر پھیلی ہوئی ہے رحمت عظیمہ) نازل فرما، اور اس بیماری سے اپنی شفا عنایت فرما " (اس دعا کے پڑھنے سے انشاء اللہ بیمار) اچھا ہو جائے گا۔ ( ابوداؤد ) نیز مزے کی بات یہ ہے کہ خود مرزا غلام احمد قادیانی نے رفعہ اللہ کے معنی آسمان کی طرف اٹھایا جانا لکھے ہیں۔ "رافعک کے معنی یہی معنی ہیں کہ جب حضرت عیسیٰ فوت ہو چکےتو ان کی روح آسمان کی طرف اٹھائی گئی (ازالہ اوہام ص ۲۶۶، خزائن ج۳ص۲۳۴)۔ نیز حضرت مسیح تو انجیل کو ناقص کی ناقص ہی چھوڑ کرآسمانوں پر جا بیٹھے۔(حاشیہ براہیں احمدیہ ص ۳۶۱، خزائن ج۱ ص ۴۳۱)۔نیز مرزا نے مزید لکھا ہے کہ"شریعت نے دو طرفوں کو مانا ہےایک خدا کی طرف اور وہ اونچی ہے جس کا مقام انتہائی عرش ہےاور دوسری طرف شیطان کی اور بہت نیچی ہےاور اس کا انتہا زمین کا پاتال۔غرض یہ کہ تینوں شریعتوں کا متفق علیہم مسئلہ ہےکہ مومن مر کر خدا کی طرف جاتا ہے اور اس کے لیے آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں۔تحفہ گولڑویہ ص ۱۴) گویا کہ حضرت عیسیٰ کی نسبت یہ اختلاف نہیں کہ کس طرف اٹھائے گئےقادیانیوں کو بھی تسلیم ہے کہ رفع آسمانوں کی طر ف ہوا یعنی جہت رفع میں کوئی اختلاف نہیں ہاں حالت رفع میں ہے جس کی وضاحت میں نے پہلے ہی کر دی ہے۔چنانچہ بل رفعہ اللہ الیہ یعنی اللہ نے حضرت عیسیٰ کو اپنی طرف اٹھا لیا کہ معنی یہی ہیں کہ اللہ نے آسمان پر اٹھا لیا جیسا کہ تَعْرُجُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ إِلَيْهِ (معارج ۴)چڑہیں گے اس کی طرف فرشتے اور روح ۔ (اس کی طرف یعنی اللہ کیطرف) سے مراد یہی ہے کہ آسمان کی طرف چڑھتے ہی